Tabassum

Add To collaction

دردِ من

وہ بہت ہنستی تھی اور میں کبھی کبھار اسکی اس عادت سے چڑ جاتا تھا 

کتنا ہنستی ہو تم وہ بھی بغیر کسی وجہ کے میں تمہیں چیلنج کر رہا ہوں کہ تم ایک منٹ تک مجھے اپنی کھی کھی روک کر دکھا دو
میں دونوں ہاتھ باندھے مصنوعی غصے سے اسے گھور رہا تھا
سوچ لو اگر میں نہیں ہنسی تو رو دوں گی 
اس نے اپنی ہنسی پہ قابو پاتے ہوئے بمشکل اپنی بات مکمل کی
نہیں روئوگی مجھے پتا ہے تم سے اپنی ہنسی کنٹرول ہی نہیں ہو گی
میں نے تنک کر اپنی ناک سے مکھی اڑائی 
چیلنج منظور ہے مسٹر
وہ میرے بلکل سامنے کھڑی ہو کر میری آنکھوں میں دیکھنے لگی
ٹھیک ہے یور ٹائم سٹارٹس ناؤ
میں نے ایک نظر اپنی کلائی پہ بندھی گھڑی کو دیکھا اور پھر اسکے چہرے کو بغور دیکھنے لگا
ایک
دو
تین
چار
پانچ
پسِ منظر میں کوئی من چلا ہمارے اس ایک منٹ والے چیلنج سے محظوظ ہوتا ہوا باآواز بلند گنتی گننے لگا تھا
پہلے دس سکینڈز گزرنے تک اسکا چہرہ سپاٹ ہو چکا تھا اور میں ہارنے کے ڈر سے عجیب و غریب شکلیں بنا کر اسے ہنسانے کی کوشش کرنے لگا مگر اگلے دس سکینڈز میں وہ کہیں کھو چکی تھی میرا خوف مزید بڑھ گیا اور میں اسکے چہرے کے سامنے ہاتھ لہرا کر اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگا 
اچھا سنو میں تمہیں ایک لطیفہ سناوں؟؟
میں یہ چیلنج ہر قیمت پہ جیتنا چاہتا تھا عموماً جب میں اسے لطیفہ سنانے کا کہتا تھا تو وہ سننے سے پہلے ہی پاگلوں کی طرح ہنسنا شروع کر دیتی تھی مگر اس وقت وہ سوچوں کے سمندر میں ایسا غرق ہوئی کھڑی تھی کہ شاید میری بات بھی نہیں سن رہی تھی 
چھتیس
سینتیس
اڑتیس
انتالیس
چالیس
گنتی کرتے من چلے کی آواز اب پرجوش سی ہوتی جا رہی تھی
ایک سڑک کے درمیان میں بہت سارے لوگ کھڑے ہوتے ہیں قریب سے ایک لڑکے کا گزر ہوتا ہے تو وہ اس مجمعے کو دیکھ کر متجسس ہو جاتا ہے اور رش میں جگہ بنا کر آگے جانے کی کوشش کرنے لگتا ہے مگر اسے کوئی رستہ نہیں دیتا
یہ اسکا پسندیدہ لطیفہ تھا جو وہ ہر بار سنتے ہوئے نئے سرے سے لطف اندوز ہوتی تھی مگر اب وہ نہیں سن رہی تھی پچاسواں سکینڈ شروع ہوتے ہی اسکی شفاف آنکھیں پانی سے بھر گئیں پھر پلکوں کی جھالریں آپس میں ملیں اور وہ بوندیں بہہ کر دھوپ کی تمازت سے گلابی پڑتے اسکے گالوں کو بھگو گئیں 
میں آتی ہوں
یکدم اسکا ٹرانس ٹوٹا اور وہ چہرہ صاف کرتے ہوئے مڑ گئی وہ چیلنج جیت چکی تھی مگر نجانے کیوں وہ میرے ہارنے پر مجھے چڑانے کیلئے نہیں رکی 
رکو تم کہاں جا رہی ہو
میں بے چین ہو کر اسکے پیچھے لپکا
کچھ دیر تنہا رہنا چاہتی ہوں
پھر وہ بنا کچھ کہے مجھے الجھا کھڑا چھوڑ کر تیز تیز قدم اٹھاتی مجھ سے دور چلی گئی پھر گنتی کرتا وہ من چلا بھی میری ہنسی اڑا کر وہاں سے چلا گیا اسکے بعد میں نے اسے کبھی یہ چیلنج نہیں کیا تھا کیونکہ میں اسکی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا اور میں نے اسکی بلاوجہ کی ہنسی سے چڑنا بھی چھوڑ دیا تھا اور پھر وہ بھی کبھی میرے سامنے روئی نہیں تھی سب کچھ نارمل تھا جب کئی سال بعد ایک دن اچانک اسکا فون استعمال کرتے ہوئے میں نے نوٹ پیڈ کھول لیا جہاں بہت ساری ادھوری تحریریں پڑی تھیں وہ شاید اسکے احساسات تھے جنھیں وہ کبھی مجھ سے نہیں کہتی تھی میں ایک ایک کر کے انہیں کھول کر پڑھتا گیا انہی میں سے ایک نوٹ یہ بھی تھا
"تمہیں اِن بھوری آنکھوں کے افسانے پڑھنے کی خواہش ہے جو خوابوں کے ستارے نوچے جانے کی وجہ سے زخمی ہو چکی ہیں 
مگر میں تمہیں اپنی آنکھوں کی کہکشاؤں کے پیچھے چھپی کرب زدہ افسانوی دنیا تک رسائی نہیں دونگی
مجھے اپنے کرب کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کی عادت ہے 
میں تمہیں اپنی لایعنی باتوں اور بے ساختہ ہنسی سے ہمیشہ خوش گمان رکھوں گی"
اور اسکی یہ بات پڑھ کر میری الجھن ختم ہو گئی مگر اس نے مجھے اتنا عرصہ خوش گمان رکھا اور میں رہا آگہی کا یہ دکھ میرے وجود میں گہری اداسی چھوڑ گیا

 #

   19
0 Comments